Author: Admin (Page 21 of 54)

Wo rakh le mujhe apne pas qaid kar k

wo rakh le mujhe apne pas qaid kar k

kash kuch aesa mujhse kasur ho jaye


وہ رکھ لے مجھے اپنے پاس کئی قید کر کے

کاش کچھ ا یسا مجھ سے کسور ہو جائے


Pehle to uss ne gham ke fawaid…

Pehle to uss ne gham ke fawaid kiye bayan,

Phir waqfa le ke kehne laga, Khush raha karo…

پہلے تو اس نے غم کے فوائد کئے بیان

پھر وقفہ لے کے کہنے لگا ، خوش رہا کرو

Dil ko isi guman mein rakha hai umar bhar…

Dil ko isi guman mein rakha hai umar bhar,

Iss imtehan key baad koi imtehan nahin…

دل کو اسی گمان میں رکھا ہے عمر بھر

اس امتحان کے بعد کوئی امتحان نہیں

To kya hua jo aap ke shumar mein nahin raha…

To kya hua jo aap ke shumar mein nahin raha,

Mein mukhtalif sa shakhs tha hazar mein nahin raha…

تو کیا ہوا جو آپ کے شمار میں نہیں رہا

میں مختلف سا شخص تھا ہزار میں نہیں رہا

Sar hi ab phorain nidamat mein…

Sar hi ab phorain nidamat mein,

Neend aane lagi hai furqat mein,

Hain dalilain tere khilaaf magar,

Sochta hoon teri himayat mein…

سر ہی اب پھوڑیں ندامت میں

نیند آنے لگی ہے فرقت میں

ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر

سوچتا ہوں تیری حمایت میں

CHOR JAANE KA SABAB BHI NA BTAYA JAYE

چھوڑ جانے کا سبب بھی نہ بتایا جائے
اب جِسے جانا ہے وہ شوق سے ، ہاہا جائے
کس قدر تلخ رویے سہے ہم نے چپ چاپ
کتنی کوشش تھی کہ رشتوں کو بچایا جائے
اس نے رکھا ہی نہیں اپنی رفاقت کا بھرم
ہم نے چاہا تھا اُسے ٹوٹ کے چاہا جائے
وہ بھی کیا لوگ ہیں ملتی ہے پذیرائی جنہیں
ہم کو حسرت ہی رہی ہم کو سراہا جائے
کہہ رہا تھا کوئی آ کر کہ اُسے جانا ہے
ہم نے بھی کہہ دیا جانا ہے تو اچھا جائے
اپنی عادت ہے بکھر کر خود ہی یکجا ہونا
اب تو خواہش ہی نہیں ہے کہ سنبھالا جائے
اے خُدا یا تو مجھے سونپ دیا جائے وہ
یا مرے دل سے اِسی وقت نکالا جائے


JITNA PIYARA KHUD HAI UTNI PIYARI US KI SOCH HAI

جتنا پیارا خود ہے اُتنی پیاری اُس کی سوچ ہے
اُف وہ اتنا خوبصورت ہے کہ تیری سوچ ہے
نسلِ نَو کے شاعروں کو ہلکا پُھلکا مت سمجھ
جتنی سادہ شاعری ہے اُتنی گہری سوچ ہے
اختلافِ رائے کا مطلب عداوت تو نہیں
تیری اپنی سوچ ہے اور میری اپنی سوچ ہے
اُس کو چُھو لینا تو ہے اچھے نصیبوں والی بات
ویسے اُس کو سوچتے رہنا بھی اچھی سوچ ہے
اپنی رائے دینے سے کافر مَیں کیسے ہوگیا ؟
مجھ کو رکھنے دیجیے جو میری ذاتی سوچ ہے


HUSSAIN AP SE SEEKHA HAI MEIN NE

حُسینؓ آپ سے سیکھا ہے بولنا میں نے
سو ظلم دیکھ کے خاموش رہ نہیں سکتا
میں جُوئے علم میں غوطہ زنی کا قائل ہوں
سو سطحِ آب پہ چُپ چاپ بہہ نہیں سکتا
حُسینؓ آپ سے عیسٰی صِفَت کے ہوتے ہوئے
عطائیوں کو مسیحا میں کہہ نہیں سکتا
ہزار زخم عداوت کے سہہ رہا ہوں مگر
درِ حسینؓ سے دُوری میں سہہ نہیں سکتا


IS MOHABAT MEIN YAHI AZAAR THA

اس محبت میں یہی آزار تھا
جو کیا جتنا کیا بے کار تھا

خواب تھا میرا کہ میں بیدار تھا
آپ آئے ، فیصلہ دشوار تھا

چاند تارے توڑ بھی لائے مگر
اس کو اب کچھ اور ہی درکار تھا

آنکھ کو بھاتے ہیں چہرے اور بھی
دل مرا پر صاحبِ کردار تھا

روتے روتے کیا بچھڑنا، ہنس دیے
ہم سے کب یہ پہلی پہلی بار تھا

خود کو اچھا کیسے کہہ دوں میں بھلا
آخرش میرا بھی اک معیار تھا

ایک جملے میں خلاصہ زیست کا
تخت جانا تھا جسے وہ دار تھا


DARGUZAR MERI HAR KHATA KAR DE

درگزر میری ہر خطا کر دے
بے سکوں ہوں سکوں عطا کر دے

میرے لب پر وہی دعا کر دے
جو معطل مری سزا کردے

بند کر دے ہر ایک در مجھ پر
اس طرح خود سے آشنا کر دے

اپنی خواہش کا ہوں ستایا ہوا
اپنی چاہت سا پھر نیا کر دے

جو نہ بھولے کبھی تجھے اک پل
حافظہ وہ مجھے عطا کر دے

سارا عالم ہے سر جھکائے ہوئے
لا دوا ہے مرض دوا کر دے

وہ نہ چاہے تو پھر بتا ابرک
کون ہے جو ترا بھلا کر دے


« Older posts Newer posts »