ﺩﮬﮍﮐﻦ ﮐﯽ ﺍﻟﮭﺠﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﻨﻮﺍﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﺍُﺗﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﺑﺲ ﺍِﺗﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺁﻭﺍﺯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺍِﺗﻨﺎ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﭘﮑﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﻓﮑﺮ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﺗﮭﺎ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﻓﻘﻂ ﺧﯿﺎﻝ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍُﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﻤﺠﮫ ﻟﯿﺎ
ﻣﺤﺴﻦ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﺎﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ بس
Author: Admin (Page 19 of 54)
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا
موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی
یار بھی راہ کی دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا مرے یار سمجھتے ہیں مجھے
جڑ اکھڑنے سے جھکاؤ ہے مری شاخوں میں
دور سے لوگ ثمر بار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو خود بکنے کو بازار میں آیا ہوا ہوں
اور دکاں دار خریدار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے اداکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اس پار ہیں اس پار مجھے جانتے ہیں
یہ جو اس پار ہیں اس پار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو یوں چپ ہوں کہ اندر سے بہت خالی ہوں
اور یہ لوگ پر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
روشنی بانٹتا ہوں سرحدوں کے پار بھی میں
ہم وطن اس لیے غدار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ ان اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
لاش کی طرح سر آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مددگار سمجھتے ہیں مجھے
اپنی تصویر کو رکھ کر تیری تصویر کے ساتھ
میں نے یہ عمر گزاری بڑی تدبیر کے ساتھ
ہو گیا دفن یہ قصہ بھی جہانگیر کے ساتھ
اب کہاں عدل کا رشتہ رہا زنجیر کے ساتھ
جس کو میں اپنا بناتا ہوں ، بچھڑ جاتا ہے
میری بنتی ہی نہیں ، کاتب تقدیر کے ساتھ
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے آبلہ مسجد ہوں، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں، بیگانے بھی نا خوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظر باز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال میں میرا دل بے قید ہے خرم
کیا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند
زندگی پُھول ہے، خوشبو ہے، مگر یاد رہے
زندگی، گردشِ حالات بھی ہو سکتی ہے
چال چلتے ہُوئے، شطرنج کی بازی کے اُصول
بُھول جاؤ گے، تو پھر مات بھی ہوسکتی ہے
ایک تو چھت کے بِنا گھر ہے ہمارا مُحسؔن
اُس پہ یہ خوف کہ برسات بھی ہو سکتی ہے
Sab jurm meri zaat sey mansoob hain Muhsin,
Kya merey siwa shehr mein masoom hain sarey…
سب جرم میری ذات سے منسوب ہیں محسن
کیا میرے سوا شہر میں معصوم ہیں سارے
Khata’ein ho hi jaati hain, azaaley bhi to mumkin hain,
Jesey mujh sey shikayt ho, usey kehna miley mujh sey…
خطائیں ہو ہی جاتی ہیں ، ازالے بھی تو ممکن ہیں
جیسے مجھ سے شکایت ہو ، اسے کہنا ملے مجھ سے
Khak ho key reh gayi barson ki riyazat,
Mujh ko bigar dala teri nazar kharab ney…
خاک ہو کے رہ گئی برسوں کی ریاضت
مجھ کو بگاڑ ڈالا تیری نظر خراب نے
Tijarat ki garz sey bacha gareeb ka,
Khawab bechney aaya tha khilono ki chah mein…
تجارت کی غرض سے بچا غریب کا
خواب بیچنے آیا تھا کھلونوں کی چاہ میں