خواب دکھلا کے نکل جاتے ہیں تعبیروں سے
ہم بندھے رہتے ہیں خود ساختہ زنجیروں سے
غور کرنے پہ بھی اب یاد نہیں آتا ہے
پوچھنا پڑتا ہے، میں کون ہوں، تصویروں سے
یوں نہیں ہے کہ فقط تو ہی خفا ہے مجھ سے
خود بھی عاجز ہوں بہت، اپنی ہی تدبیروں سے
مجھ کو معلوم نہیں پڑتا عدو کون ہے تو
میں پتہ پوچھتا رہتا ہوں ترا، تیروں سے
جیتنا ہے تو محبت سے ہرانا ہو گا
لوگ ڈرتے نہیں اب آپ کی شمشیروں سے
دن بدل جائیں گے تیرے جو خدا مل جائے
خود بخود ہاتھ چھڑا لے گا تو ان پیروں سے
وہ تو کہتا ہے کہ آسان زباں ہے میری
ہم نے آسانی کو مشکل کیا تفسیروں سے
آج سب سے بڑے ناقد ہیں وہی لوگ مرے
جن کو تحریک ملی تھی مری تحریروں سے
Author: Admin (Page 17 of 62)
دو گھڑی مانگی جہاں جینے کی فرصت ہم نے
زندگی کو یہ لگا ، کی ہے شکایت ہم نے
جس سے لڑتے ہیں اسے آپ منا لیتے ہیں
خوب بدلی ہے ترے بعد یہ عادت ہم نے
جانے کیا حال ترے بعد ہوا ہو اپنا
تیرے جاتے ہی کیا خود کو بھی رخصت ہم نے
ایک ہی شخص پہ موقوف جہاں کیا کرنا
دل کو بہکایا بہت ، لاکھ کی منت ہم نے
کٹ گئے یونہی ترے ہجر میں سب ماہ و سال
ایک صورت کے سوا دیکھی نہ صورت ہم نے
یونہی الزام نہ دے دیکھ بھلے یاروں کو
کسی ناصح کی سنی کب ہے نصیحت ہم نے
بیچ آتی ہیں ہمیں روز ہماری سانسیں
اپنے ہونے کی چکائی بڑی قیمت ہم نے
ایک دنیا ہمیں پہلے بھی یہاں جانتی تھی
بس ترے غم ہی سے پائی نہیں شہرت ہم نے
اپنے حالات پہ ہنستے ہیں بہت ہنستے ہیں
کیسی کم ظرف یہ پائی ہے طبیعت ہم نے
حادثے زخم بھی دیتے ہیں سبق بھی ابرک
ایک ہی شخص سے پکڑی بڑی عبرت ہم نے
نہ جانے کتنے ٹکڑوں میں بٹا ہوں
میں اپنے ہاتھ سے خود گر پڑا ہوں
گھٹن ، وحشت ہی باقی رہ گئی ہے
میں کب کا خود سے ہجرت کر چکا ہوں
روایت سے نہیں بنتی ہے میری
خطا میری ہے میں کیوں سوچتا ہوں
مٹانے کو مجھے سب مر رہے ہیں
سو یہ تو طے ہؤا سب سے بڑا ہوں
تمہارے مشوروں سے لگ رہا ہے
میں دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں
یہی اک حل سمجھ آیا تھا مجھ کو
خفا تجھ سے تھا خود سے لڑ پڑا ہوں
کوئی آئے بٹائے ہاتھ میرا
میں اپنے بوجھ سے تھکنے لگا ہوں
مقابل زیر کر بیٹھا تو دیکھا
اب اپنے سامنے میں خود کھڑا ہوں
رہتا ہے ساتھ ساتھ وہ جانے کے بعد بھی
ملبہ وہیں پڑا ہے اٹھانے کے بعد بھی
سمجھے تھے ہم کہ آخری دشواریاں ہیں یہ
اک اور تھا زمانہ ، زمانے کے بعد بھی
کر ہجر میں شمار اسے وصل میں نہ لکھ
آیا نہ اب کی بار وہ آنے کے بعد بھی
مجھ سے زیادہ حافظہ ہے مبتلا مرا
پڑھتا ہے تیرے خط یہ جلانے کے بعد بھی
اب پیرِ تسمہ پا سے نہیں کم یہ زندگی
جو بچ گئی ہے تجھ پہ لٹانے کے بعد بھی
یوں کارِ عشق فرق ہے کارِ جہان سے
بڑھتا ہے بوجھ اور گھٹانے کے بعد بھی
تقدیر سے انہیں بھی گلہ ہے، عجیب ہے
ملتے نہیں جو لوگ ملانے کے بعد بھی
شاید رواج ہی نہیں ابرک یہاں رہا
رسوا ہوں کیوں وگرنہ نبھانے کے بعد بھی
ایسی سیاہ رات سے ہے واسطہ پڑا
روشن ہؤا دیا نہ جلانے کے بعد بھی
اکتا گیا ہے اک ہی مشقت سے دل مرا
لگتا نہیں ہے اب یہ لگانے کے بعد بھی
سرِ بازار سجاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
گر قلم بیچ کے کھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
جھوٹ کے پاؤں بناتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
آنکھ دیکھا نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
وقت کی دھونس میں آتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
شاہ کے ناز اٹھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
راہ سیدھی نہ دکھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خضر ، رہزن کو بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خونِ ناحق جو چھپاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
ظلم انصاف بتاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بات بے وجہ بڑھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
دیے نفرت کے جلاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
خود کو لفظوں میں نچاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بس خریدار رجھاتے ہو تو کیوں لکھتے ہو
بسا تو لیتے نیا دل میں ہم مکیں لیکن
ملا نہ آپ سے بڑھ کر کوئی حسیں لیکن
کسی کے بعد بظاہر تو کچھ نہیں بدلا
ہمارے پاؤں تلے اب نہیں زمیں لیکن
جہانِ عشق سے باہر بھی ایک دنیا ہے
دلایا دل کو بہت ہم نے یہ یقیں ، لیکن
یقیں مجھے ہے مرے ساتھ سانپ کوئی نہیں
ہر ایک ہاتھ کی ہوتی ہے آستیں لیکن
ہزار جام مچلتے رہے ہمارے لئے
ہماری پیاس نہ چھلکی کبھی کہیں لیکن
سبھی فریب تھا لیکن وہ آخری جملہ
کبھی ملیں گے دوبارہ یہیں کہیں لیکن
یہ اور بات خوشی ساتھ ساتھ ہے ابرک
ہمارے بیچ کوئی رابطہ نہیں لیکن
زندگی کی چاہت میں زندگی گنوائی ہے
عارضی محبت تھی مستقل نبھائی ہے
سوکھ کر ہرے پتے شاخ سے گریں گے پھر
ڈوبتا ہے دل میرا جب بہار آئی ہے
مختصر کہانی کچھ یوں ہے رائیگانی کی
بڑھ گئے اندھیرے کچھ، شمع جب جلائی ہے
قید میں رہائی کے خواب دیکھنے والا
اب رہا ہؤا ہے تو قید یاد آئی ہے
خاک پھر بھلا بنتی میری تیری دنیا سے
اک طرف خدا تو ہے، اک طرف خدائی ہے
مجھ کو بھی ملا دینا ، تم کو گر وہ مل جائے
خوش ہے زندگی جس سے ، جس کو راس آئی ہے
جلد باز کہتے ہیں راستے ہمیں ابرک
منزلوں کو شکوہ ہے دیر کیوں لگائی ہے
Wafa-e-ishiq hoon,ab bikhar jaon to behtar hai,
Jidhar jaatey hain ye badal,udhar jaon to behtar hai,
Ye dil kehta hai terey shehr mein kuch din thehir jaon,
Magar haalat kehtey hain,ghar jaon to behtar hai,
Dilon mein farak aye gein ,taluq toot jayen gein,
Jo dekha,jo sunna uss sey mukar jaon to behtar hai,
Yahan hai kon mera jo mujhey samjhey ga,
Mein koshish kar key ,ab khud he sudhar jaon to behtar hai…