ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
Author: Admin (Page 15 of 54)
سبھی ندیاں مجھ سے ملیں مگر میں کسی سے جا کے مِلا نہیں
میرے دل کی سمت نہ دیکھو تم، کسی اور کا یہ مقام ہے
یہاں اس کی یادیں مقیم ہیں، یہ کسی کو میں نے دیا نہیں
مجھے دیکھ کے نہ جھُکا نظر، نہ کواڑ دل کے تو بند کر
تیرے گھر میں آؤں گا کس طرح کہ میں آدمی ہوں ہوا نہیں
میرے دل کی خوشبو سے بھر گیا، وہ قریب سے یوں گزر گیا
وہ میری نظر میں تو پھول ہے، اسے کیا لگا میں پتا نہیں
میری عمر بھر کی تھکاوٹیں، تو پلک جھپکتے اُتر گئیں
مجھے اتنے پیار سے آج تک کسی دوسرے نے چُھوا نہیں
یہ مقدروں کی لکھاوٹیں، جو چمک گئیں وہ پڑھی گئیں
جو میرے قلم سے لکھا گیا اسے کیوں کسی نے پڑھا نہیں
یہ بدر اب بھی سوال ہے، کہ بے رخی ہے کہ پیار ہے
کبھی پاس اس کے گیا نہیں کبھی دُور اس سے رہا نہیں
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
باوضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
میں ترے ساتھ ستاروں سے گزر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمن جانی میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے
بُت بھی رکھے ہیں، نمازیں بھی ادا ہوتی ہیں
دل میرا دل نہیں، اللہ کا گھر لگتا ہے
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے
میں خود بھی احتیاطا” اُس طرف سے کم گزرتا ہوں
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے
عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے
مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جا
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
وہ درد، وہ وفا، وہ محبت تمام شُد
لے! دل میں تیرے قُرب کی حسرت تمام شُد
یہ بعد میں کھُلے گا کہ کِس کِس کا خوں ھُوا
ھر اِک بیان ختم، عدالت تمام شُد
تُو اب تو دشمنی کے بھی قابل نہیں رھا
اُٹھتی تھی جو کبھی وہ عداوت تمام شُد
اب ربط اِک نیا مجھے آوارگی سے ھے
پابندیِ خیال کی عادت تمام شُد
جائز تھی یا نہیں تھی، تیرے حق میں تھی مگر
کرتا تھا جو دل کبھی وہ وکالت تمام شُد
وہ روز روز مرنے کا قِصہ ھوا تمام
وہ روز دِل کو چیرتی وحشت تمام شُد
محسن میں کُنجِ زیست میں چُپ ہوں پڑا
مجنُوں سی وہ خصلت و حالت تمام شُد
میرا ظرف سمجھو یا میری ذات کا پردہ
جب میں بکھرتا ہوں تو خاموش رہتا ہوں
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے
حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
لمہحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے
تاروں سے سجالیں گے رہ شہرِ تمنّا
مقدور نہیں صبح ، چلو شام ہی آئے
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے
تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کوئے تمنّا
کام آئے تو پھر جذبئہِ نام ہی آئے
باقی نہ رہے ساکھ ادا دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہ انجام ہی آئے
Us sey bicharey to mar jaen gey,
Kamal ka weham tha, bukhar tak na huwa…
اس سے بچھڑے تو مر جائیں گے
کمال کا وہم تھا ، بخار تک نہ ہوا
احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاوٗں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟