Author: Admin (Page 15 of 62)

اب کوئی مجھ کو دلائے نہ محبت کا یقین

جو مجھ کو بھول نہ سکتا تھا وہی بھول گیا


Qasid hi nahin logon…

Qasid hi nahin logon uss shakhs ka dewana,

Do char kabutar bhi mein ney bhej key dekhey hain…

قاصد ہی نہیں لوگوں اس شخص کا دیوانہ

دو چار کبوتر بھی میں نے بھیج کے دیکھے ہیں

LAGA KEY KANDHEY SEY HUM KO RULANEY WALA NAHIN

لگا کے کاندھے سے ہم کو رلانے والا نہیں
جو کہہ گیا ہے کہ آئے گا آنے والا نہیں
گزارا کرنا پڑے گا ہمارے دل میں تمہیں
یہاں جو پہلے سے رہتا ہے جانے والا نہیں
وہ کوئی اور تعلق بنانے بیٹھ گیا
میں اٹھ گیا کہ نہیں، گر پرانے والا نہیں
ہمارے ساتھ شبِ غم گزارنی ہو گی
ہمارا قصہ سرِ رہ سنانے والا نہیں
میں اپنی راہ کو گھر سے بتا کے چلتا ہوں
میں حادثہ ہوں تجھے راس آنے والا نہیں
کچھ اس لئے بھی ہے یاروں سے جی اچاٹ مرا
کہ ان میں عیب کوئی اب پرانے والا نہیں
تو دیکھ سوجھی حفاظت کی کس جگہ ہم کو
بچا ہی پاس جہاں کچھ بچانے والا نہیں
وگرنہ کب کا میں ناراض ہو چکا ہوتا
تمہارے بعد کوئی اب منانے والا نہیں
دعائے خیر ہو ابرک ، ترا خدا حافظ
تو کچھ بھی کر لے تجھے ہوش آنے والا نہیں


BAHAREIN GUM HAIN, MUSALSAL KHIZAN KA MOSAM HAI

بہاریں گم ہیں ، مسلسل خزاں کا موسم ہے
کسی کے بس میں بھلا کب یہاں کا موسم ہے
وہ اور لوگ ہیں موسم بدلتے ہیں جن کے
یہاں تو مستقل اشکِ رواں کا موسم ہے
میں آنکھ، کان، زباں پر یقیں کروں کیسے
میں دل ہوں دل میں فقط اک گماں کا موسم ہے
خدا کے حکم کے برعکس ہے نظام یہاں
خفا یونہی تو نہیں آسماں کا موسم ہے
خدا خدا ہے، خدا دے کے لے بھی سکتا ہے
سو آج کل یہاں آہ و فغاں کا موسم ہے
یہ ٹھیک ہے کہ مقدر بھی دخل رکھتا ہے
ترے ہی ہاتھ تری داستاں کا موسم ہے
بھلا اتارے کوئی کیسے کاغذوں میں اسے
وہ چہرہ چہرہ نہیں گلستاں کا موسم ہے
عبث ہے بونا محبت کہ دل ہی بنجر ہیں
جہاں کی سوچ میں تیر و کماں کا موسم ہے
وہ حال پوچھے یہاں کا تو یہ بتا دینا
جہاں پہ تو ہی نہیں، کیا وہاں کا موسم ہے
یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ آج کل ابرک
ترے لکھے میں بھی سود و زیاں کا موسم ہے


MANGEY BINA HUMEIN YE RIYAT BHI HOGAI

مانگے بنا ہمیں یہ رعایت بھی ہو گئی
رونا چھپاتے، ہنسنے کی عادت بھی ہو گئی
ویسے تو اس سے پہلے بھی خانہ خراب تھا
پھر یوں ہؤا کہ ہم کو محبت بھی ہو گئی
دیکھا ہے تو نے آئینہ جڑتے ہوئے کبھی
وہ دل ہی کیا کہ جس کی مرمت بھی ہو گئی
اتنا بتا دے کھو کے کسی کو یوں یک بہ یک
پھر پہلے جیسی کیسے طبیعت بھی ہو گئی
تب تک اٹھائے ناز ضرورت تھا جب تلک
پھر ایک روز پوری ضرورت بھی ہو گئی
تا عمر ساتھ چلنے کا وعدہ کیا تھا کل
اور آج تم کو ہم سے شکایت بھی ہو گئی
لوٹا کوئی تو زخم پرانے بھی کھل اٹھے
تجدیدِ بے وفائی کی صورت بھی ہو گئی
کچھ ہاتھ کی لکیروں میں لکھا سبب بنا
کچھ حادثوں کی ہم پہ عنایت بھی ہو گئی
ایسا نہیں کہ جس کے تھے اس کے ہی بس رہے
دو چار بار ہم سے خیانت بھی ہو گئی


جب اس کا نام آئے کسی کی زبان پر

اس وقت غور سے میرے چہرے کا حال دیکھ۔


« Older posts Newer posts »

© 2025 EAGLE SITE

Theme by Anders NorenUp ↑