Sadaein Dasht hoon

صدائے دشت ہوں اور راستے میں کوئی نہیں
تمھارے بعد مرے رابطے میں کوئی نہیں

میں پھول بن کے کھلوں اور پھر بکھر جاؤں
کسی کا ہاتھ مرے حادثے میں کوئی نہیں

بہار آئے گی اور پھر سجے گا گلشن بھی
ہمارے خواب کے اس دائرے میں کوئی نہیں

بچھڑ کے ملنا، بچھڑ جانا پھر سدا کے لئے
ذرا سا غور کرو فائدے میں کوئی نہیں

اکیلے شام سے پھرتے تھے سر پہ رات آئی
سہانی رات ہے اور رتجگےمیں کوئی نہیں

بڑے وثوق سے تنکوں کو جوڑ رکھا تھا
عجب نصیب کہ اب گھونسلے میں کوئی نہیں

کہاں گئے ہیں وہ یارانِ خوش خصال کہ اب
ڈھلی ہے رات مگر میکدے میں کوئی نہیں

    شائستہ مفتی

Leave a Reply