Page 39 of 62

Khuda ke doston ki andheri raat bhi roz roshan ki tareh chamkti hai…


…خدا کے دوستوں کی اندھیری رات بھی روز روشن کی  طرح چمکتی ہے

SO Gila Bhi Kis Se Karen Ge Hum

یہ طلوعِ روزِ ملال ہے, سو گلہ بھی کس سے کریں گے ہم


کوئی دلرُبا, کوئی دل شِکن, کوئی دل فِگار کہاں رہا


~ادا جعفری

Marhaley shoq key dushwar huwa kartey

مرحلے شوق کے دُشوار ہُوا کرتے ہیں
سائے بھی راہ کی دیوار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں
وہ عدالت میں گُنہگار ہُوا کرتے ہیں
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خودار ہُوا کرتے ہیں
وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں
اُن کے سینے میں بھی شہکار ہُوا کرتے ہیں
صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے،
وہ ستاروں کے عزادار ہُوا کرتے ہیں
جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں
در حقیقت وہی فنکار ہُوا کرتے ہیں
شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسن
دُشمنی کے بھی تو معیار ہُوا کرتے ہیں


Marhaley shoq key dushwar huwa kartey

Mujh ko paani mein utarney

Mujh ko paani mein utarney ka ishara kar key,

Jaa chuka chaand samandar sey kinara kar key,

Tajurba aik he aibrat key lye kafi tha,

Mein ney dekha he nahin ishq dobara kar key…


مجھ کو پانی میں اترنے کا اشارہ کر کے

جا چکا چاند سمندر سے کنارہ کر کے

تجربہ ایک ہی عبرت کے لئے کافی تھا

میں نے دیکھا ہی نہیں عشق دوبارہ کر کے .


Mujh ko paani mein utarney

Koyi umeed bar nahin aati

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کرنا نہیں آتی
کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی
داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی


Agar tumhe zindagi ki haqeeqat maloom ho jaye…
to beshak tum koi aur saathi na chunoge siwae Allah aur uski muhbat ke…

…اگر تمہیں زندگی کی حقیقت معلوم ہو جائے
…تو بےشک تم کوئی اور ساتھی نہ چنوگے سواۓ الله اور اسکی محبت کے

Taskeen na ho jis sey wo raaz badal dalo

تسکین نہ ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے، ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سُنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا جو ہو خطرہ ، آغاز بدل ڈالو
پُرسوز دِلوں کو جو مسکان نہ دے پائے
سُر ہی نہ مِلے جس ساز میں ، وہ ساز بدل ڈالو
دشمن کے ارادوں کو ہے ظاہر اگر کرنا
تم کھیل وہی کھیلو ، انداز بدل ڈالو
اے دوست کرو ہمت کچھ دُور سویرا ہے
اگر چاہتے ہو منزل ، تو پرواز بدل ڈالو


Raston se kya gila hai

راستوں سے کیا گلہ ہے جو منزل یہاں نہیں
جس پار تھا اترنا وہ ساحل یہاں نہیں

مانا وہی ہے شہر، وہی بھیڑ بھاڑ ہے
جس کو میری تلاش وہ محفل یہاں نہیں

لازم ہمی پہ کیوں ہے، ہر اک خواب دیکھنا
کیوں ہم کسی کے خواب کا حاصل یہاں نہیں

ممکن کہاں ہے اور کی اب جستجو کروں
جب اک نظر کے بھی کوئی قابل یہاں نہیں

تم اور تمہارے بعد یہ آسانیاں ہوئیں
اب اور کوئی بھی ہمیں مشکل یہاں نہیں

کیسے کہوں یہ جھوٹ کہ سینے میں دل نہیں
یہ بھی ہے سچ وہ پہلی سی ہلچل یہاں نہیں

نیندوں کو ہم سے بچھڑے زمانے گزر گئے
یادوں سے آج کہنا وہ غافل یہاں نہیں


جو بھی یہاں پہ نکلا محبت کو بانٹنے
دریا میں پھینک آیا کہ سائل یہاں نہیں

ابرک، اٹھو، چلو کہیں دیتے ہیں اور جاں
تو جس کو ڈھونڈتا ہے وہ قاتل یہاں نہیں


Mein Uska kya bigadh sakta hoon?

پطرس بخاری کو کالج کا چوکیدار گالیاں دیتا تھا لیکن وہ جو اب

نہیں دیتے تھے ایک دن ساتھی پر وفیسر نے کہا کہ چوکیدار کہتا

ہے کہ پطرس میر اکچھ نہیں بگاڑ سکتا، پطرس نے کہا کہ وہ

ٹھیک کہہ رہا ہے اس کے پاس نہ دولت ہے، نہ شہرت اور نہ ہی عزت ہے۔
میں اسکا کیا بگاڑ سکتا ہوں؟


“Patras Bukhari ko college ka chowkidar galiyan deta tha lekin woh jo ab
nahi dete thay. Ek din saathi professor ne kaha ke chowkidar kehta hai ke Patras mera kuch nahi bigaar sakta, Patras ne kaha ke woh theek keh raha hai, uske paas na daulat hai, na shohrat aur na hi izzat hai. Main uska kya bigaar sakta hoon?”


Hai haqeqat azab rehne do

ہے حقیقت عذاب رہنے دو
ٹوٹ جائے گا خواب رہنے دو
کب سزاوار ہوں عنایت کا
یونہی زیرِ عتاب رہنے دو
تم جلا دو کتابِ ہستی کو
اک محبت کا باب رہنے دو
بے خودی میں سوال کر بیٹھا
چپ رہو، لاجواب رہنے دو
اب اتارو زمیں پہ چاند کوئی
یا انہیں بے نقاب رہنے دو
لوگ رکھے ہیں اب نظر ہم پر
فرشتو تم حساب رہنے دو
دیکھ بیٹھا ہوں پارساؤں کو
ہم کو یونہی خراب رہنے دو

مر نہ جائیں کہیں سکوں سے ہم
دل میں کچھ اضطراب رہنے دو
دل، جگر، جان آپ ہیں ابرک
سب ہیں باتیں جناب رہنے دو


« Older posts Newer posts »

© 2025 EAGLE SITE

Theme by Anders NorenUp ↑