Page 2 of 54

Kabhi mehfilon mein tanha kabhi

Kabhi mehfilon mein tanha kabhi kilkaton mein hangma,

Aye dil teri fitna gari mujhey kaya sey kaya kar gayi…


کبھی محفلوں میں تنہا کبھی خلوتوں میں ہنگامہ

اے دل تیری فتنہ گری مجھے کیا سے کیا کر گیی


Kabhi mehfilon mein tanha kabhi khilkaton mein

mohabbat ab nahin hogi…

ستارے جو دمکتے ہیں
کسی کی چشمے حیراں میں
ملاقاتیں جو ہوتی ہیں
جمال ا ابرو باراں میں
یہ نہ آباد وقتوں میں
دل ناشاد میں ہوگی
محبت اب نہیں ہوگی
یہ کچھ دن بعد میں ہوگی
گزر جایں گے جب یہ دن
یہ ان کی یاد میں ہوگی

اُلجھن کا عِلاج آہ کوئی کام نہ آیا !
جی کھول کے رویا بھی تو آرام نہ آیا
دل سینے میں جب تک رہا آرام نہ آیا
کام آئے گا کِس کے جو مِرے کام نہ آیا
کام اُس کے نہ کاش آئے وہ مغرور بھی یونہی
جیسے دلِ آوارہ مِرے کام نہ آیا
یہ کہہ کے وہ سرہانے سے بیمار کے اُٹّھے
صد شکر، کہ مجھ پر کوئی الزام نہ آیا
بجلی سی کوئی شے مِرے سینہ میں کبھی تھی
سوچا تو بہت، یاد مگر نام نہ آیا
تا حشر نہ بُھولے گا عزیز اپنی شبِ ہجر
کیا رات تھی وہ رات، کہ آرام نہ آیا
عزیز لکھنوی

Meri misaal dhuwan hai bujhey charaghon ka

Meri misaal dhuwan hai bujhey charaghon ka,

Jab apna sog manata hon, raqs karta hon…

میری مثال دھواں ہے بجھے چراغوں کا

جب اپنا سوگ مناتا ہوں، رقص کرتا ہوں

Jab dheme dheme hansti ho

jab dheme dheme hansti ho…

جب دہمے دہمے ہنستی ہو
اس بارش جیسی لگتی ہو
تھوڑی دل کی کہتی ہو
زیادہ دل میں رکھتی ہو
کیوں جاؤں رنگریز کے پاس
تم تو سیاہ میں بھی ججچتی ہو
کرنے دو انہیں سنگھار
تم سادہ بھی سجتی ہو

Dobna hi parta hai ubharne se pehle

Dobna hi parta hai ubharne se pehle

Ghroob hone ka matlab zawal nahi hota…


ڈوبنا ہی پڑتا ہے ابھرنے سے پہلے

غروب ہونے کا مطلب زوال نہیں ہوتا


Dobna hi parta hai ubharne se pehle

Raat ho, chand ho, shanasa ho

raat ho, chand ho, shanasa ho…

رات ہو ، چاند ہو ،شناسا ہو
کیوں نہ رگ رگ میں پھر نشہ سا ہو
میں نے ایک عمر خرچ کی ہے تم پر
تم میرا ، قیمتی اثاثہ ہو
ایک تو خوف بھی ہو دنیا کا
اور محبت بھی بے تحاشا ہو

Itna metha tha wo gusey bhara lehja mat poch

Itna metha tha wo gusey bhara lehja mat poch,

Us ney jis jis ko bhi janey ka kaha beth gaya…

اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ

اس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا


اخلاق نہ برتیں گے مدارا نہ کریں گے 

اب ہم بھی کسی شخص کی پرواہ نہ کریں گے  

کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں 

اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے  

کم گوئی کہ اک وصف حماقت ہے ہر طور 

کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے  

اب سہل پسندی کو بنائیں گے وتیرہ 

تا دیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے  

غصہ بھی ہے تہذیب تعلق کا طلب گار 

ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے  

کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون 

طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے  

جون ایلیا


« Older posts Newer posts »